زیاراتمکہ مکرمہ

غلاف کعبہ​

خانہ کعبہ کی دیواروں اور باب کعبہ (دروازہِ کعبہ) کو جس کپڑے سے ڈھانپا جاتا ہے اس کو غلاف کعبہ یا کسوہ کہتے ہیں۔ ازمانہ جاہلیت میں لوگ کعبہ پر غلاف چڑھاتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد اسے برقرار رکھا ایک روایت میں ہے کہ رمضان کریم کے روزوں کی فرضیت سے قبل لوگ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور اسی دن کعبہ پرغلاف ڈالا جاتا تھا ـ

 

غلاف کعبہ کی تیاری کا آغاز کب ہوا اس کی درست تاریخ کے کے متعلق کوئی بات دلیل سے کہنا مناسب نہیں تاہم معلوم تاریخ اور مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا غلاف یمن کے”تبع الحمیری” نامی ایک بادشاہ نے تیار کیا تھا۔ چونکہ تبع یمنی بادشاہوں کا لقب تھا اور اس دور میں یریمنی بادشاہ اپنے نام کے ساتھ یہ لقب شامل کرتا تھا۔
تبع الحمیری نے نے مکہ مکرمہ کے دورے کے بعد واپسی پر ایک موٹے کپڑے کی مدد سے غلاف کعبہ تیار کیا۔ بعد ازاں اسی بادشاہ نے "المعافیریہ” کپڑے سے غلاف تیار کیا۔ معافیریہ یمن کا ایک قصبہ تھا جہاں سوت سے کپڑے تیار کیے جاتے تھے اور اسی نام سے اس کپڑے کو ‘المعافیر’ یا ‘المعافیریہ’ کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد ایک نرم اور رقیق دھاگے سے غلاف کعبہ تیار کیا گیا۔ دور جاہلیت ہی میں سرنگ رنگ کا یمانی ڈیزائن کے مطابق غلاف تیار کیا گیا۔ تبع بادشاہوں کے بعد دور جاہلیت کے دوسرے فرمانرواؤں نے بھی غلاف کعبہ میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ بعد میں آنے والوں نے چمڑے کا غلاف بھی تیار کیا۔ تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ غلاف کعبہ کی تیاری میں ہر آنے والا حکمراں پہلے سے بڑھ کر اس محنت
کراتا۔ یوں اللہ کے گھر کے غلاف کے معاملے میں بادشاہوں میں بھی ایک مقابلے کی کیفیت تھی۔
یہ معلوم نہیں کہ فتح مکہ سے قبل عہد نبوی میں غلاف کعبہ تیار کیا گیا یا نہیں البتہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ‘القباطی’ نامی کپڑے سے غلاف کعبہ تیار کرایا تھا۔ یوں یہ اسلامی عہد میں پہلا غلاف کعبہ تھا۔ ایک تاریخی روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کے دور کا تیار کردہ غلاف کعبہ اس وقت تبدیل کیا جب ایک خاتون کے ہاتھوں غلاف کعبہ کا کچھ حصہ جل گیا تو آپ نے یمانی کپڑے سے نیا غلاف تیار کرایا تھا۔
خلفائے راشدین میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں القباطی اور یمانی کپڑوں کے غلاف تیار کیے گئے۔ حضرت عثمان بن عفان نے نیا غلاف تیار کرنے کے بجائے بہ یک وقت دو غلاف چڑھا دیے تھے۔ ایک ہی وقت میں خانہ کعبہ کے دو غلافوں کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ دیگر خلفائے راشدین کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عہد حکومت ‘پُرفتن’ دور رہا اور انہیں غلاف کعبہ کی تیاری کا موقع نہیں مل سکا۔ البتہ ان کے بعد آنے والے خلفاء اور سلاطین نے غلاف کعبہ کی تیاری کو اپنے فرائض منصبی ودینی میں شامل رکھا یہ سلسلہ خلافت عباسی تک جاری رہا۔
عباسی خلافت کی کمزوری کےبعد یمن اور مصر کے سلاطین بھی غلاف بھیجتے تھے عرب دنیا جب آل عثمان کے زیرنگین آئی تو غلاف کا انتظام بھی ان کی طرف سے ہونے لگا سلطان سلیم بن بایزید خان نے غلاف کا رنگ سیاہ متعین کردیا ـ 750 ہجری سے کعبہ کا غلاف اس وقف کی آمدنی سےتیار کیا جاتا تھا جسے اسماعیل بن الملک الناصر بن قلادون نے وقف کیا تھا ـ تیرہویں صدی ہجری کے اوائل میں مصری حاکم محمد علی باشا نے اس وقف کو ختم کر دیا اور مصری حکومت نے اپنے خزانہ سے اس کے خرچ کا اعلان کیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا ـ پھر مختلف وجوہ سے مصر کی طرف سے غلاف آنا بند ہو گیا 1345 ہجری میں جب عین وقت پر معلوم ہوا کہ مصر سے غلاف نہیں آئے گا تو سعودی حکومت نے بعجلت تمام اپنے یہاں غلاف کی تیاری کا انتظام کی اور اب یہی سلسلہ جاری ہے۔ غلاف کعبہ کی بناوٹ میں کلمہ اور بعض جملے لکھے ہوئے ہیں اور قرآنی آیات کو سنہرے حروف میں منقش کیاجاتا ہےـ
سعودی عرب کے حکمراں خاندان نے غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے الگ سے محکمہ قائم کرنے کے بعد 1397 ھجری میں ام الجود بندرگاہ پر اس مقصد کے لیے ایک خصوصی کارخانہ قائم کیا۔ اس کارخانے میں غلاف کعبہ کی جدید ترین تکنیک کے مطابق تیاری کے لیے تمام ضروری انتظامات کیے گئے۔ یوں ہر سال یہ کارخانہ بیت اللہ کا ایک نیا غلاف تیار کرتا ہے جسے پورے تزک واحتشام کے ساتھ خانہ کعبہ کی زینت بنایا جاتا ہے۔
غلاف کعبہ کی موٹائی 98 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ غلاف کعبہ کی اونچائی 14 میٹر ہے۔رکنین کی جانب سے غلاف کی چوڑائی 10 اعشاریہ 78 میٹر ہوتی ہے۔ملتزم کی جانب سے غلاف کی چوڑائی 12 اعشاریہ 25 میٹر، حجر اسود کی سمت سے 10 اعشاریہ 29 میٹر جبکہ باب ابراہیم کی جانب سے 12 اعشاریہ 74 میٹر ہوتی ہے۔غلاف کی تیاری پر 20 ملین ریال کی لاگت آتی ہے۔
غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے مکہ میں جو کارخانہ قائم کیا گیا ہے اس کے افتتاح کے موقع پر جو کتابچہ شائع کیا گیا تھا اس میں یہ وضاحت ہے کہ غلاف کی تیاری میں 670 کلوگرام خالص سفید ریشم لگتا ہے ، جسے سیاہ رنگ میں رنگنے کے لئے 720 کلو گرام رنگ اور اس کے لوازم استعمال کئے جاتے ہیں ـ
ماہ ذی الحجہ کے اوائل میں جب حجاج کی بھیڑ بڑھ جاتی ہے تو قدیم غلاف نصف اوپر اٹھا دیا جاتا ہے اور کھلے حصہ کو سفید کپڑے سے چھپا دیا جتا ہے جب 9 تاریخ ہوتی ہے اور مسجد بیرونی لوگوں سے خالی ہو جاتی ہے تو نیا غلاف کعبہ پر ڈال کر اسے نصف تک اٹھا دیا جاتا ہے ـ پھر جب بھیڑ ختم ہو جاتی ہے ، یعنی اواخر ذی الحجہ اور اوائل محرم تو پورا غلاف لٹکا دیا جاتا ہے ـ

متعلقہ تحریریں

Back to top button
error: Content is protected !!