زیاراتمدینہ منورہ

سبعہ مساجد مدینہ منورہ

مدینہ منورہ میں بہت سی ایسی مساجد ہیں جو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں مدینہ منورہ آنے والے حجاج اور معتمرین کی کوشش ہوتی ہے یہاں پر موجود تمام ایسی مساجد اور تاریخی مقامات دیکھے جائیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے یا تاریخ اسلام سے وابستہ رہے ہوں انہیں میں "سبعہ مساجد یعنی کے سات مساجد کا مجموعہ” بھی شامل ہیں۔ ان کی تعداد درحقیقت چھ ہے مگر تاریخی اہمیت کے حامل یہ مقامات "سات مساجد” کے نام سے مشہور ہیں۔ مؤرخین کے مطابق "مسجدِ قبلتين” کو بھی جو ان چھ مساجد کے مجموعے سے تقریبا ایک کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، بقیہ مساجد کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ جو کوئی بھی ان چھ مساجد کی زیارت کرتا ہے وہ اسی سفر میں مسجدِ قبلتین کا دورہ بھی کر لیتا ہے۔ اس طرح یہ تعداد سات ہو جاتی ہے۔

مجموعے کی چھ مساجد مدینہ منورہ میں جبلِ سلع کی مغربی سمت اُس مقام کے نزدیک واقع ہیں جہاں غزوہ خندق کے موقع پر مسلمانوں نے مدینہ منورہ کے دفاع کے واسطے مشہور خندق کی کھدائی کی تھی۔ یہ معرکہ غزوہ احزاب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

یہ مقامات اس غزوہ کے دوران مربوط انداز سے زیرِ نگرانی تھے۔ لہذا ہر مسجد کو اس کی متعلق شخصیت کے نام سے منسوب کر دیا گیا سوائے مسجد الفتح کے جس کو مسلمانوں کی فتح کے ساتھ منسوب کیا گیا۔ شمال سے جنوب کی جانب یہ مساجد بالترتیب اس طرح ہیں مسجد الفتح، مسجد سلمان فارسی، مسجد ابو بکر صدّيق، مسجد عمر بن خطاب، مسجد علی بن ابو طالب اور مسجد فاطمہ [رضی للہ عنہم اجمعین]۔
1- مسجد الفتح
ان میں سب سے بڑی مسجد الفتح کو مسجدِ الاحزاب یا مسجد الاعلی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ جبلِ سلع کے مغرب میں واقع ہے۔ مسجد الفتح کی وجہ تسمیہ اس مقام پر سورہ فتح کا نازل ہونا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مدینہ منور کی گورنری کے دور میں (87-93 ہجری) اس کو پتھروں سے تعمیر کرایا تھا۔ بعد ازاں 575 ہجری میں وزیر سیف الدین ابو الہیجاء کے حکم پر اس کی ترمیم ہوئی۔ عثمانی سلطان عبدالمجید اوّل کے دور میں 1268 ہجری مطابق 1851ء میں اس مسجد کی از سر نو تعمیر کی گئی۔
2- مسجد سلمان فارسی
دوسری مسجد کا نام مسجد سلمان فارسی ہے جو مسجد الفتح کے جنوب میں صرف 20 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ معروف صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے نام پر ہے جنہوں نے مدینہ منورہ کے دفاع کے واسطے خندق کھودنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس مسجد کو بھی عمر بن عبدالعزیز کے دور میں تعمیر کیا گیا ، وزیر سیف الدین کے حکم سے ترمیم ہوئی اور پھر سلطان عبدالمجید اوّل کے زمانے میں از سر نو تعمیر کی گئی۔
3- مسجدِ ابوبکر
تیسری مسجد کا نام مسجدِ ابوبکر ہے جو مسجدِ سلمان کے جنوب مغرب میں 15 میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہ سابقہ مذکور مساجد کے ساتھ تعمیر ہوئی۔ اب اس کو توسیع کے واسطے منہدم کر دیا گیا ہے۔
4- مسجد عمر خطاب
مسجد ابوبکر کے جنوب میں 10 میٹر کے فاصلے پر مجموعے کی چوتھی مسجد یعنی مسجد عمر خطاب واقع ہے۔ اس کا طرز تعمیر مسجد الفتح سے مطابقت رکھتا ہے اور غالبا اس کی تعمیر اور ترمیم مسجد الفتح کے ساتھ ہی مکمل کی گئی ہو گی۔
5- مسجد علی بن ابو طالب
اس ترتیب میں پانچویں مسجد کا نام مسجد علی بن ابو طالب ہے۔ یہ مستطیل شکل میں ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس کی لمبائی 8.5 میٹر اور چوڑائی 6.5 میٹر ہے۔ غالبا یہ مسجد بھی مسجد الفتح کے ساتھ ہی تعمیر ہوئی اور اس کے ساتھ ہی ترمیم کے عمل سے گزری۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس مقام پر عمرو بن ود العامری کو قتل کیا تھا جس نے غزوہ احزاب کے دوران اس خندق کو عبور کر لیا تھا۔
6- مسجدِ فاطمہ
اس مجموعے میں چھٹا نمبر مسجدِ فاطمہ کا ہے۔ تاریخی کتب میں یہ مسجد سعد بن معاذ کے نام سے موجود ہے۔ یہ اس مجموعے کی سب سے چھوٹی مسجد ہے جس کی پیمائش صرف 4×3 میٹر ہے۔ غالبا اس کی آخری تعمیر بھی عثمانی سلطان عبدالمجید اوّل کے دور میں ہوئی۔

متعلقہ تحریریں

Back to top button
error: Content is protected !!